حضرت آدم علیہ السلام کے بعد یہ مقدس عصاء حضرات انبیاء کرام علیہم الصلا والسلام
کو یکے بعد دیگرے بطور میراث کے ملتا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت شعیب علیہ السلام کو
ملا جو ''قومِ مدین'' کے نبی تھے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے ہجرت فرما
کر مدین تشریف لے گئے اور حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی صاحبزادی حضرت بی
بی صفوراء رضی اللہ عنہا سے آپ کا نکاح فرما دیا۔
اور آپ دس برس تک حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں رہ کر آپ کی بکریاں
چراتے رہے۔ اس وقت حضرت شعیب علیہ السلام نے حکمِ خداوندی (عزوجل) کے
مطابق آپ کو یہ مقدس عصا عطا فرمایا۔
پھر جب آپ اپنی زوجہ محترمہ کو ساتھ لے کر مدین سے مصر اپنے وطن کے لئے
روانہ ہوئے۔ اور وادی مقدس مقام ' طویٰ'' میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی سے
آپ کو سرفراز فرما کر منصب ِ رسالت کے شرف سے سربلند فرمایا۔
اس وقت حضرت حق جل مجدہ نے آپ سے جس طرح کلام فرمایا قرآن مجید نے اس کو
اِ س طرح بیان فرمایا کہ
ترجمہ :۔اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے، اے موسیٰ عرض کی یہ میرا عصا ہے میں
اس پر تکیہ لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور میرے اِس میں
اور کام ہیں۔(پ 16،طہ:17،18)
حضرت موسیٰ علیہ السلام اِس مُقدّس لاٹھی سے مذکورہ بالا کام نکالتے رہے مگر جب
آپ فرعون کے دربار میں ہدایت فرمانے کی غرض سے تشریف لے گئے اور اْس نے
آپ کو جادوگر کہہ کر جھٹلایا تو آپ کے اس عصا کے ذریعہ بڑے بڑے معجزات کا
ظہور شروع ہو گیا، جن میں سے تین معجزات کا تذکرہ قرآنِ مجید نے بار بار فرمایا جو
حسب ذیل ہیں۔
عصا اژدہا بن گیا:۔
اس کا واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے ایک میلہ لگوایا۔ اور اپنی پوری سلطنت کے
جادوگروں کو جمع کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکست دینے کے لئے مقابلہ
پر لگا دیا۔ اور اس میلہ کے ازدحام میں جہاں لاکھوں انسانوں کا مجمع تھا، ایک طرف
جادوگروں کا ہجوم اپنی جادوگری کا سامان لے کر جمع ہو گیا۔ اور ان جادوگروں کی
فوج کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا ڈٹ گئے۔
جادوگروں نے فرعون کی عزت کی قسم کھا کر اپنے جادو کی لاٹھیوں اور رسیوں کو
پھینکا تو ایک دم وہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر پورے میدان میں ہر طرف
پھنکاریں مار کر دوڑنے لگیں اور پورا مجمع خوف و ہراس میں بدحواس ہو کر اِدھر
ادھر بھاگنے لگا اور فرعون اور اس کے تمام جادوگر اس کرتب کو دکھا کر اپنی فتح
کے گھمنڈ اور غرور کے نشہ میں بدمست ہو گئے اور جوشِ شادمانی سے تالیاں بجا
بجا کر اپنی مسرت کا اظہار کرنے لگے کہ اتنے میں ناگہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام
نے خدا کے حکم سے اپنی مقدس لاٹھی کو اْن سانپوں کے ہجوم میں ڈال دیا تو یہ لاٹھی
ایک بہت بڑا اور نہایت ہیبت ناک اڑدہا بن کر جادوگروں کے تمام سانپوں کو نگل گیا۔
یہ معجزہ دیکھ کر تمام جادوگر اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے سجدہ میں گرپڑے
اور باآوازِ بلند یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ ہم سب حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ
علیہما السلام کے رب پر ایمان لائے۔
چنانچہ قرآنِ مجید نے اِس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔
ترجمہ :۔ بولے اے موسیٰ یا تو تم ڈالو یا ہم پہلے ڈالیں موسیٰ نے کہا بلکہ تمہیں ڈالو
جبھی ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ا ن کے جادو کے زور سے ان کے خیال میں دوڑتی
معلوم ہوئیں تو اپنے جی میں موسیٰ نے خوف پایا ہم نے فرمایا ڈر نہیں بیشک تو ہی
غالب ہے اورڈال تو دے جو تیرے داہنے ہاتھ میں ہے اور اْن کی بناوٹوں کو نگل جائے
گا وہ جو بنا کر لائے ہیں وہ تو جادوگر کا فریب ہے اور جادوگر کا بھلا نہیں ہوتا کہیں
آوے تو سب جادوگر سجدے میں گرالئے گئے بولے ہم اس پر ایمان لائے جو ہارون اور
موسیٰ کا رب ہے۔
(پ16،طہ65تا70)
عصا مارنے سے چشمے جاری ہو گئے:۔ بنی اسرائیل کا اصل وطن مْلکِ شام تھا لیکن
حضرت یوسف علیہ السلام کے دورِ حکومت میں یہ لوگ مصر میں آ کر آباد ہو گئے اور
ملکِ شام پر قوم عمالقہ کا تسلط اور قبضہ ہو گیا۔ جو بدترین قسم کے کفار تھے۔ جب
فرعون دریائے نیل میں غرق ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے
خطرات سے اطمینان ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ قوم ِ عمالقہ سے جہاد کر کے
ملکِ شام کو اْن کے قبضہ و تسلط سے آزاد کرائیں۔
چنانچہ آپ چھ لاکھ بنی اسرائیل کی فوج لے کر جہاد کے لئے روانہ ہوگئے مگر ملکِ
شام کی حدود میں پہنچ کر بنی اسرائیل پر قومِ عمالقہ کا ایسا خوف سوار ہو گیا کہ بنی
اسرائیل ہمت ہار گئے اور جہاد سے منہ پھیر لیا۔ اس نافرمانی پر اللہ تعالیٰ نے بنی
اسرائیل کو یہ سزادی کہ یہ لوگ چالیس برس تک ''میدان تیہ''میں بھٹکتے اور
گھومتے پھرے اور اس میدان سے باہر نہ نکل سکے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ان لوگوں کے ساتھ میدانِ تیہ میں تشریف فرما تھے۔
جب بنی اسرائیل اس بے آب و گیاہ میدان میں بھوک و پیاس کی شدت سے بے قرار ہو
گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان لوگوں کے کھانے کے
لئے ''من و سلویٰ'' آسمان سے اتارا۔ مَن شہد کی طرح ایک قسم کا حلوہ تھا، اور
سلویٰ بھنی ہوئی بٹیریں تھیں۔ کھانے کے بعد جب یہ لوگ پیاس سے بے تاب ہونے
لگے اور پانی مانگنے لگے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر اپنا عصا مار دیا
تو اْس پتھر میں بارہ چشمے پھوٹ کر بہنے لگے اور بنی اسرائیل کے بارہ خاندان
اپنے اپنے ایک چشمے سے پانی لے کر خود بھی پینے لگے اور اپنے جانوروں کو
بھی پلانے لگے اور پورے چالیس برس تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا جو عصا اور پتھر کے ذریعہ ظہور میں آیا۔
قرآن مجید نے اس واقعہ اور معجزہ کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔
ترجمہ :۔اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا
عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔ ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا۔
(پ1،البقرة: 60)
عصا کی مار سے دریا پھٹ گیا:۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک مدت دراز تک فرعون کو ہدایت فرماتے رہے اور آیات و
معجزات دکھاتے رہے مگر اس نے حق کو قبول نہیں کیا بلکہ اور زیادہ اس کی شرارت
و سرکشی بڑھتی رہی۔ اور بنی اسرائیل نے چونکہ اس کی خدائی کو تسلیم نہیں کیا اِس
لئے اس نے اْن مومنین کو بہت زیادہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اِس دوران میں ایک دم
حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی اتری کہ آپ اپنی قوم بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے
کر رات میں مصر سے ہجرت کرجائیں۔
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر رات میں مصر سے
روانہ ہو گئے۔
جب فرعون کو پتا چلا تو وہ بھی اپنے لشکروں کو ساتھ لے کر بنی اسرائیل کی گرفتاری
کے لئے چل پڑا۔ جب دونوں لشکر ایک دوسرے کے قریب ہو گئے تو بنی اسرائیل
فرعون کے خوف سے چیخ پڑے کہ اب تو ہم فرعون کے ہاتھوں گرفتار ہوجائیں گے
اوربنی اسرائیل کی پوزیشن بہت نازک ہوگئی کیونکہ اْن کے پیچھے فرعون کا
خونخوار لشکر تھا اور آگے موجیں مارتا ہوا دریا تھا۔
اس پریشانی کے عالم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام مطمئن تھے اور بنی اسرائیل کو
تسلی دے رہے تھے۔ جب دریا کے پاس پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ
السلام کو حکم فرمایا کہ تم اپنی لاٹھی دریا پر ماردو۔ چنانچہ جونہی آپ نے دریا پر
لاٹھی ماری تو فوراً ہی دریا میں بارہ سڑکیں بن گئیں اور بنی اسرائیل ان سڑکوں پر چل
کر سلامتی کے ساتھ دریا سے پار نکل گئے۔
فرعون جب دریا کے قریب پہنچا اور اس نے دریا کی سڑکوں کو دیکھا تو وہ بھی اپنے
لشکروں کے ساتھ اْن سڑکوں پر چل پڑا۔ مگر جب فرعون اور اس کا لشکر دریا کے بیچ
میں پہنچا تو اچانک دریا موجیں مارنے لگا اور سب سڑکیں ختم ہو گئیں اور فرعون
اپنے لشکروں سمیت دریا میں غرق ہو گیا۔ اس واقعہ کو قرآن مجید نے اس طرح بیان
فرمایا کہ:۔
ترجمہ:۔ پھر جب آمنا سامنا ہوا دونوں گروہوں کا موسیٰ والوں نے کہا ہم کو انہوں نے
آلیا موسیٰ نے فرمایا۔
یوں نہیں بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے اب راہ دیتا ہے تو ہم نے موسیٰ کو
وحی فرمائی کہ دریا پر اپنا عصا مار تو جبھی دریا پھٹ گیا تو ہر حصہ ہو گیا جیسے بڑا
پہاڑ۔ اور وہاں قریب لائے ہم دوسروں کو اور ہم نے بچالیا موسیٰ اور اس کے سب ساتھ
والوں کو پھر دوسروں کو ڈبو دیا بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور اْن میں اکثر
مسلمان نہ تھے۔ (پ19،الشعراء : 61تا 67)